Tuesday 23 June 2020

Sufi Saint Hazrat Faizal Faqeer of Jhal Magsi District. A spritual Nobel religious Personality.

حضرت صوفی فیض محمد المعروف حضرت فیضل فقیر نصیرآباد ڈویژن کے صوفیاء کرام میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں جنہوں نے حضرت صوفی سید رکھیل شاہ اور حضرت صوفی سید چیزل شاہ کے زیرسایہ وجدان و کشف حاصل کیا۔ حضرت فیضل فقیر گاجان شہر کے قبیلہ لاشار  میں 3 ربیع ثانی 1301 ھ/1883 ع میں جمعرات کے دن پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام خان محمد تھا۔ سات آٹھ برس کی عمر  کو پہنچے تو عام دستور کے مطابق اپنے بیلوں کو چرانے کے لیے لے جانے لگے۔ دس برس کی عمر تک کھیل کود ہی میں مصروف رہے۔
 پھر آپ کی زندگی میں ایک موڑ آیا اور آپ دل لگا کر تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ چناچہ والدین کو بتائے بغیر آپ ایک مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ "میں بھی علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔" مولوی صاحب نے آپ کا شوق اور رجھان دیکھ کر پڑھانا شروع کیا۔ جب آپ نے قرآن شریف ختم کرلیا تو دستور کے مطابق مولوی صاحب نے ان کے ہاتھ تسبیح سے باندھے اور چند طالب علموں کے ہمراہ انہیں ان کے گھر بھیج دیا۔ والدین نے حقیقت دریافت کی تو طالب علموں نے بتایا کہ انہوں نے قرآن مجید ختم کر لیا ہے اس لیے استاد نے ان کے ہاتھ تسبیح سے باندھ دیے ہیں اور آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ ختم قرآن کی مٹھائی دیں۔ اس پر فیضل کے والدین بے حد خوش ہوئے اور فی الفور مولوی صاحب کی خدمت میں بچھڑا بھجوا دیا۔
اب آپ فارسی و عربی کتب پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ پہلے تو تعلیم کی رفتار سست ہی رہی کیونکہ اکیس سال کی عمر میں 'سکندر نامہ' سے فارغ ہوئے۔
بہر حال ظاہری تعلیم سے فراغت پاکر آپ تعلیم باطنی کی جانب متوجہ ہوئے اور مرشد کامل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ فتح پور ( علاقہ گنداوا، ضلع کچھی)  پہنچ کر حضرت سید رکھیل شاہ  صوفی القادری کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ وہاں پہلے طلبہ کو درس دینے میں مصروف رہے پھر پیر مغاں کے ارشاد کے مطابق پرانی مسجد میں بیٹھ گئے اور چلہ کشی شروع کی۔
 چلہ کھینچنے کا طریقہ یہ ہے کہ چلہ کھینچنے والا ایک کوزہ پانی کا اور چند کھجوریں اپنے پاس رکھتا ہے اور ان میں سے چند دانے کھاتا رہتا ہے اور چالیس روز تک ذکر الہیٰ میں مشغول رہ کر ایک چلہ پورا کرتا ہے۔
 فیضل فقیر نے بھی اسی دستور پر عمل کیا مگر آپ یاد الہیٰ میں اتنے منہمک ہوگئے کہ کھانے پینے کا خیال تک نہ رہا۔ چالیس دن گذرنے کے بعد  دوسرے لوگ  وہاں پہنچے تو  انہوں نے دیکھا کہ آپ نڈھال پڑے ہوئے ہیں۔ سانس بھی مشکل سے آرہی ہے۔ انہوں نے منہ میں شربت ٹپاکیا تو سانس آئی۔ اور یوں آپ اس اولین منزل کو بخیر و خوبی طے کرکے آگے بڑھے۔
 آپ کئی سال تک فتح پور میں مرشد کی خدمت میں رہے اور پیر کامل کی رہنمائی میں طریقت کی منازل طے کیں۔ 
بلوچی شعر کا ترجمہ ترجمہ: فتح پور میں وہ خود ہی ہادی تھا اور خود ہیں پیر مغاں تھا۔
بعد ازاں مرشد سے اجازت لے کر نواب شاہ کی جانب روانہ ہونے لگے لیکن آپ کے قبیلے کے لاشاریوں نے انہیں وہاں جانے سے روکا اور عرض کی کہ نصیر آباد  (بلوچستان) میں ان کی ایک بستی ہے جو جن اور دیووں کی وجہ سے ویران ہوچکی ہے۔ آپ وہاں چلیں اور اسے آباد کریں۔  صوفی فیضل فقیر  راضی ہوگئے اور نواب شاہ جانے کا ارادہ ترک کردیا اور ان لوگوں کے ہمراہ اس ویران بستی میں پہنچے اور اس کا نام فیض پور رکھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے گرد و پیش کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر فیض ہونے لگے۔ کہتے ہیں کہ اس بستی میں ایک مجذوب عورت تھی جس نے لوگوں کو جنوں کے خوف سے بستی کو چھوڑتے دیکھا تھا۔ وہ کبھی کبھی کہا کرتی کہ "ایک نہ ایک دن یہاں ایک مرد خدا آئے گا اسے (جن کو) اس بستی سے نکالے گا" آخر اُس مجذوبہ کی بات درست نکلی اور صوفی فیضل کی وجہ سے وہ ویران بستی آباد ہوگئی۔ کسی نے صحیح کہا ہے:

 بہر جا چوں رود نیکو سرشتے،
اگر دوزخ بود گردد بہشتے۔
 
آپ سے کئی کرامات منسوب ہیں جیسے:
ایک دن گنداوہ کے قریب صدیق کی ویران مسجد میں آپ خدا کی یاد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص حیران و سرگردان ہانپتا  کانپتا  وارد ہوا اور کہنے لگا کے خدا کے واسطے مجھے کہیں پناہ  دیں کہ دشمن مجھے قتل کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں تمہیں چھپاؤں ، یہ صرف ایک ویران مسجد ہے۔ اس نے کہا جس طرح ہو مجھے دشمنوں سے بچائیے۔ آپ نے فرمایا کہ کھڑے نہ رہو مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ جاؤ۔ خدا تم کو امان دے گا۔ وہ شخص مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اتنے میں پانچ سات آدمی جو لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے لیس تھے، وہاں آ پہنچے اور کہا یہاں ہمارا مفرور آیا ہے، یہ اس کے قدموں کے نشانات ہیں۔ صوفی فیضل کہنے لگے میں ایک فقیر ہوں۔ تمہارا مفرور میرے پاس کہاں ہے اور میں نے کہاں چھپایا ہے؟ انہوں نے مسجد کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن اُس کا نام و نشان نہ ملا۔ وہ مایوس ہوکر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد وہ مفرور بھی سلامتی کے ساتھ نکل گیا۔
صوفی صاحب  نے ایک درخت کا پودا لگایا۔ چند دنوں کے بعد وہ خشک ہوگیا۔ ایک روز آپ نے اسے دیکھ کر لوگوں سے فرمایا کہ  اسے پانی کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے عرض کی حضور ہم تو پانی دیتے ہیں لیکن یہ سوکھ گیا ہے۔ آپ آئے اور درخت کے کناروں کو آہستہ آہستہ عصا سے مارتے رہے۔ اور فرمایا اسے پانی دو، خدا نے چاہا تو یہ ہرا بھرا ہوجائے گا۔ خدمتگاروں نے آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ وہ پودا سرسبز ہوکر ایک بڑا درخت بن گیا۔
 آپ کی بستی کو جانے والی راہ پر ایک آدمی نے قبضہ کر لیا کیونکہ وہ زمین بھی آپ نے بخش دی تھی۔ لوگوں کی آمد و رفت بند ہوئی۔ سب مجبور ہوکر آپ کے پاس آئے اور حقیقت حال بیان کی اور کہا آپ ہمیں حکم دیں ہم لڑ جھگڑ کر اس سے راستہ واپس لے لیتے ہیں۔ صوفی فیضل نے فرمایا کہ ہم فقیروں کا کام لڑنا جھگڑنا نہیں بلکہ مخلوق کے لیے نیک دعا کرنا ہے۔ سب لوگ لاچار ہوکر خاموش ہوگئے۔
خدا کی قدرت ایک روز وہی راستہ بند کرنے والا شخص ہیضہ میں مبتلا ہوگیا۔ آپ کو پتہ چلا تو آپ نے ایک تعویذ لکھ کر کسی کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ اس کو پانی میں گھول کر پی لو خدا نے چاہا تو تندرست ہوجاؤ گے۔ ڈرنا نہیں اور یہ خیال نہ کرنا کہ فقیر نے مجھے بدعا دی ہے۔ اس تعویذ کے استعمال کے بعد وہ شخص تندرست ہوگیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت چاہی۔
آپ کے چند مرید ایک بنیے کے مقروض تھے۔ قرضے کے بدلے اس ساہوکار نے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے بے حد منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا۔ وہ لوگ مجبوراََ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےا ور کہا آپ بیچ بچاؤ کرا دیجیے۔ وہ ہماری زمینوں پر قبضہ نہ کرے، ہم عہد کرتے ہیں اس کا قرض آہستہ آہستہ ادا  کر دیں گے۔ آپ نے ساہوکار سے کیا لیکن وہ نہ مانا اور تحصیل میں جا کر رپورٹ درج کرا دی۔ آپ نے مریدوں سے کہا تم لوگ جاؤ اور خدا  پر بھروسہ رکھو ۔ انشااللہ اسے کامیابی نہیں ہوگی۔
ساہوکار کی رپورٹ پر تحصیل دار نے قرض داروں کو طلب کیا۔ اور ہندو کو حکم دیا کہ جا کر اپنا بہی کھاتہ لاؤ۔ ہندو بے بہی کھاتہ سامنے رکھا۔ شروع سے آخر تک دیکھا ایک پیسہ بھی بقایا نہ نکلا۔ دیکھا کہ سب رقم وصول ہوچکی ہے۔ ششدر رہ گیا۔ آخر بہی کھاتے کو بغل میں دبا کر چلتا بنا اور قرض داروں کی جان میں جان آئی۔ اس روز کے بعد ہندو غریب ہونا شروع ہوا حتیٰ کہ بالکل قلاش ہوگیا اور اس کا دو منزلہ مکان بھی گر پڑا۔
آپ کو سماع سے دلچسپی تھی۔ ایک روز مریدوں نے کہا کہ ریڈیو سے اچھے اچھے نغمے نشر ہوتے ہیں۔ آج آپ ان سے لطف اندوز ہوں۔ آپ نے کہ نہیں رہنے دو۔ مریدوں نے ضد کی اور ریڈیو لاکر سامنے رکھ دیا۔ لیکن ریڈیو بالکل خاموش ہوگیا۔ اسے آپ سے دور لے گئے تو پھر وہ چلنے شروع ہوگیا۔
صوفی فیضل فقیر کی تصویر کیمرے سے نہیں اترتی تھی۔ کئی بار کوشش کے باوجود کامیابی نہیں ہوسکی۔ آخر جب حج کی تیاری کرنے لگے تو آپ سے کہا گیا کہ تصویر کے بغیر حج لے لیے نہیں جانے دیتے۔ اس لیے مہربانی کرکے تصویر کھنچوانے کی اجازت دے دیجیے ۔ صرف اس وقت آپ کی تصویر اتر سکی۔
آپ بیمار ہوئے تو علاج کے لیے ایک ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ نبض دیکھ کر ڈاکٹر نے فقیر صاحب سے پوچھا کہ جناب طبیعت کیسی ہے۔ آپ نے گرج کر کہا کہ خدا کا شکر ہے میں تندرست ہوں۔
ڈاکٹر یہ کیفیت ملاحظہ کرنے کے بعد باہر جاکر رونے لگا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں حیران ہوں کہ نبض بالکل بند ہے مگر معلوم نہیں کہ شیر کی طرح گرج کر بات کرنے والا کون ہے۔ تھرمامیٹر سے دیکھا تو جسم کا درجہ حرارت 103 ڈگری تھا۔
آخری وقت بھی میں بھی فقیر صاحب سے نماز قضا نہیں ہوئی۔ صبح کی نماز کے وقت اپنے فرزند سے کہا تیمم کے لیے اینٹ لاؤ۔ وہ اینٹ لے آیا۔ آپ نے تیمم کیا اور لیٹے لیٹے نماز پڑھنی شروع کی اور اسی حالت میں آپ کا وصال ہوا۔

آپ کی تاریخ وفات 14 ربیع الثانی 1377 ھ (بمطابق 8 نومبر 1957 ع ) ہے۔ آپ فارسی، اردو ، بلوچی، سندھی، سرائیکی اور براہوی زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ اسی کے ذریعے علم دین کی خدمت کی۔ آپ کی شاعری تصوف میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آپ کے دیوان آپ کے جانشین حاجی محرم فقیر کے پاس محفوظ ہیں۔

 مددی کتب و حوالاجات:
قدیم براہوی شعرا، حصہ اول، عبدالرحمن براہوی، کوئٹہ 1968ع ص 97-98
چھ زبانوں کا صوفی شاعر فیضل، پیر محمد زبیرانی (بزبان بلوچی)، بولان نامہ، کوئٹہ 1967ع

Friday 23 December 2016

An ancient graveyard of Mithri Balochistan and tomb of Pir Izat Shah Bukhari

بلوچستان کے ضلع کچھی بولان کے نواحی گاؤں مٹھڑی جو نواب محمد  اسلم رئیسانی کا آبائی گاؤں ہے اپنے اندر بلوچ روایات کا ایک عظیم ترین خزانہ سموئے ہوئے ہے مٹھڑی میں رئیسانی بلوچ اقوام کے علاوہ سید اور دیگر جاموٹ اقوام بھی آباد ہیں سبی شہر سے تیس 30 منٹ کی مسافت پر واقع اس چھوٹے سے علاقے میں تمام اقوام ملنساری اور مساوات  کی بناء پر متحد ہوکر رہتی ہیں اس علاقے کے یوں تو کافی مقامات جن میں نوابی قلعے اور پرانے طرز کی گلیاں اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک خاص ذریعہ ہیں وہیں مٹھڑی کا قدیم قبرستان بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس قبرستان میں ولی اللہ تعالیٰ  حضرت پیر عزت شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار انکی صوفیانہ خدمات کا عکاس ہے پیر عزت شاہ رحمتہ الله عليه کے مزار سے ملحقہ قبرستان میں اقوامِ رئیسانی کے نواب،  سردار اور تمنداروں کے عظیم الشان مقبرے انکے درخشاں ماضی کی کہانیاں بیان کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے ادوار میں بلخصوص اقوامِ رئیسانی اور بالعموم بلوچ قوم کی بقاء کے لیے  کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں  اب ہماری بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قومی ورثے کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں

Wednesday 1 June 2016

Nawab Yousaf Aziz Magsi- The Man of courage in Balochistan.

Nawaz Yousaf Aziz Magsi  was born in Jhal Magsi in1908. His Excellency  was a prominent Baloch leader from the present-day Balochistan province of Pakistan. He hailed from the Magsi tribe headquartered in Jhal Magsi, the ancestral home of the Magsi. His title was Nawab, which means "ruling prince" or "tribal chief". His father,  Nawab Kaiser Khan Magsi, was the Nawab of the Magsi tribe. Nawab Yousaf Aziz Khan obtained his education at home. He was able to master Arabic, Persian and Urdu within a few years. Then he was taught English by a private tutor for two years.
In 1922, because of some family problems Yousaf Magsi's father Nawab Kaiser Khan and Yousaf himself had to go into exile in Multan. Yousaf Khan stayed in exile in Multan until 1929. Nawab Yousaf Aziz Khan was impressed by the revolutionary atmosphere of Punjaband was drawn toward the Indian National Congress' struggle for independence from British rule. He was filled with a desire to launch a similar struggle in Balochistan. His first step in this regard was an article he wrote, titled "Balochistan Kee Faryaad" or "Balochistan's Lament", which was published in a weekly newspaper, Hamdard, on November 17, 1929. As a result of this article, a special Jirga held in Qalat on July 17, 1930 sentenced Mir Yousaf Aziz Khan to one year of solitary confinement in Zehri and an 11,000 rupee fine. Nawab Yousaf Aziz also published the pamphlet Baluchistan Kee Awaz (Voice of Baluchistan), which was sent to the British parliament to raise awareness of his cause. During the proceedings of the above-mentioned Jirga, Nawab  Yousaf Aziz Khan was held in Mastung Jail. While he was in jail, members of a clandestine political party (Anjuman-i-Ithihaad i Balochaan), who were also deeply impressed by the struggle of the Indian National Congress, contacted Yousaf Ali Khan. They helped him during his solitary confinement. In 1931, after completing his sentence, Mir Yousaf Ali Khan came to Quetta where, along with Mir Abdul Aziz Kurd, Nawabzada Mir Abdul Rehman Bugti, Mohammad Hussain Unqa, Malik Faiz Mohammad Yousafzai and others, he officially announced the Anjuman-i-Ithihaad i Balochaan as a political party. Mir Abdul Aziz Kurd was elected as theGeneral Secretary of the party while Mir Yousaf Ali Khan became its President. The Prime Minister of Kalat issued orders to arrest Yousaf Ali Khan once again but Yousaf somehow learned about the plan to arrest him beforehand, so he went and took refuge inJacobabad, where he started his famous Magsi Agitation. After the death of the Khan of Kalat, Mir Mehmood Khan II, Prime Minister Sir Shams Shah lobbied Mir Mehmood Khan II's son Mir Mohammad Anwar Khan to the throne while on the other side, Mehmood Khan's brother Mir Azam Khan claimed to be the rightful heir to the throne of Kalat. Anjuman-i-Ithihaad i Balochaan announced their support for Mir Azam Khan and successfully launched a struggle to appoint him as the Khan of Kalat. After Mir Azam Khan became the Khan, Sir Shams Shah was fired from his position as the Prime Minister of Kalat. In 1932, Mir Yousal Ali Khan's elder brother Nawab Gul Mohammad Khan Magsi (who had become the Nawab of the Magsi tribe after the death of Nawab  Kaiser Khan) was impeached, and in his place Yousaf Ali Khan was elected as the chief of the tribe. In 1934 Nawab Yousaf Ali Khan went to Europe and stayed there for eight or nine months. On his return to Balochistan on January 31, 1935, he resumed his struggle with great vigour and zeal. On May 31, 1935, Quetta was hit with a  earthquake which claimed thousands of lives. Among the casualties was Nawab Yousaf Aziz Khan Magsi.
نواب یوسف عزیز مگسی جھل مگسی 1908 میں پیدا ہوئے تھے. ہز ایکسی لینسی پاکستان کے موجودہ صوبہ بلوچستان سے ایک ممتاز بلوچ رہنما تھے. ان کا تعلق اپنے آبائی علاقے جھل مگسی سے تھا. ان کے والد نواب قیصر خان مگسی، مگسی قبیلے کے نواب تھے. نواب یوسف عزیز خان نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی. انہوں نے چند سال کے اندر اندر عربی، فارسی اور اردو میں مہارت حاصل کرلی تھی. اس کے بعد انہوں نے دو سال تک ایک پرائیویٹ ٹیوٹر سے انگریزی کی تعلیم حاصل کی.
1922 میں کچھ خاندانی مسائل کے سبب یوسف مگسی کے والد نواب قیصر خان کو ملتان میں جلاوطنی میں گزارنا  پڑا. میں نواب یوسف عزیز مگسی  پنجابند کے انقلابی ماحول سے متاثر ہوئے.  جو برطانوی راج سے آزادی کے لیے انڈین نیشنل کانگریس کی جدوجہد سے تیار کی گئی تھی 1929 تک ملتان میں جلاوطنی میں ٹھہرے رہے. انکا دل بلوچستان میں ایک اسی طرح کی جدوجہد شروع کرنے کی خواہش کے ساتھ بھرا ہوا تھا. اس سلسلے میں انہوں نے پہلے قدم کےطور پر ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان "بلوچستان کی فریاد" تھا جو نومبر 17، 1929 کو ایک ہفتہ روزہ اخبار"ہمدرد" میں شائع کیا گیا اس مضمون کے نتیجے  میں  ایک خاص جرگہ 17 جولائی 1930 میں قلات میں منعقد  ہوا جس میں  انھیں ایک سال کے لئے مستونگ کے مقام پر قید کیا گیا اور گیارہ ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا. 1930 میں ہی نواب یوسف عزیز نے قید کے دوران ایک پمفلٹ (بلوچستان کی آواز) کے نام سے جاری کیاجو بوچستان کے بارے میں شعور بلند کرنے کے لئے برطانوی پارلیمنٹ کو بھیجا گیا تھا شائع کیا. جیل میں قید کے دوران ایک خفیہ سیاسی جماعت انجمن اتاد بلوچستان کے اراکین جو انڈین نیشنل کانگریس کی جدوجہد سے بہت متاثر تھے، یوسف علی خان سے رابطہ کیا. 1931 میں سزا مکمل کرنے کے بعد میر یوسف علی خان کوئٹہ آئے جہاں میر عبدالعزیز کرد، نوابزادہ میر عبدالرحمان بگٹی، محمد حسین انکا، ملک فیض محمد یوسفزئی اور دیگر افراد کے ساتھ انہوں نے سرکاری سطح پرانجمن اتحاد بلوچستان کا بطور سیاسی پارٹی اعلان کیا. نواب  یوسف علی خان اس کے صدر بن گئے جبکہ میر عبدالعزیز کرد جماعت کے جنرل سیکرٹری کے طور پر منتخب کیا گیا تھا. قلات کے وزیر اعظم نے ایک بار پھر یوسف علی خان کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے لیکن وہ پہلے ہی جیکب آباد چلے گئے۔ اور وہاں انہوں نے اپنا مشہور "مگسی احتجاج" شروع کر دیا. قلات میر محمود خان دوئم کی وفات کے بعد وزیر اعظم سر شمس شاہ نے نئے  خان کے لئے محمود خان دوئم کے بیٹے محمد انور خان کے لئے  لابنگ شروع کر دی  جبکہ دوسری طرف محمود خان دوئم کے بھائی میر اعظم خان درست وارث ہونے کے دعویدار تھے انجمن اتحاد بلوچستان  نے میر اعظم خان کی حمایت کا اعلان کیا اور قلات کے خان کےلئے میر اعظم خان کو  مقرر کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا. میر اعظم خان, خان آف قلات بن گیاجس کے بعد سر شمس شاہ کو قلات کے وزیر اعظم کے طور پر ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا. 1932 میں یوسف علی خان کے بڑے بھائی نواب گل محمد خان مگسی (جو نواب قیصر خان کی وفات کے بعد مگسی قبیلے کے نواب بن گئے تھے) کا مواخذہ کیا گیا تھا، اور ان کی جگہ میر یوسف علی خان کو  قبیلے کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا تھا . 1934 میں نواب یوسف علی خاں یورپ گئے اور آٹھ یا نو ماہ کے لئے وہاں ٹہرے رہے. 31 جنوری، 1935 کو بلوچستان میں ان کی واپسی ہوئی واپسی پر نہایت جوش اور ولولے کے ساتھ  جدوجہد کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا
31 مئی 1935  کو کوئٹہ  میں ہولناک زلزلہ آیا ہزاروں ہلاکتوں میں  نواب یوسف عزیز خان مگسی بھی تھا جس سے بلوچستان  کی حریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا. اور بلوچستان  اپنے جانباز سپوت سے محروم ہو گیا.

Tuesday 17 November 2015

State of Qalat- A brief History

بلوچستان، قیام پاکستان کے وقت مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخواہ  کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ سن سینتالیس تک بلوچستان قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پربرطانویایجنٹ نگران تھاان میں سب سے بڑی ریاست خانیت قلات ریاست قلات کے حکمران خان آف قلات میر احمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کیساتھ خصوصی اختیارات پر مزاکرات کی پیشکش کی تھی خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاکستانی افواج نےخان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انہیں افغانستان فرار ہونا پڑا- یہ پاکستان میں بلوچوں کے خلاف پہلی فوجی کاروائی تھی اور یوں بلوچوں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ثابت ہوئی

میر نصیر خان کا شمار قلات بلوچستان کے ممتاز ہردلعزیز ترین برو ہی سرداروں میں ہوتا تھا، وہ میر عبداللہ خان برو ہی کا تیسرا چھوٹا بیٹا تھا، اسکی ماں بی بی مریم التازئی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، نادر شاہ کے وفات کے بعد میر نصیر خان، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ قندھار چلا آيا، جب افغانستانکے بادشاہ کے لیے احمد شاہ کا انتخاب ہوا تو میر نصیر خان نے برو ہی سرداروں کی نما ہند گی کی، اسنے احمد شاہ کے حق میں رائے دیکر بالادستی قبول کرلی، کچھ دن بعد نصیر خان کے بھائی محبت خان نے لقمان خان کی بغاوت میں حصہ لے کر احمد شاہ کا اعتماد کھو دیا ،1749ء میں احمد شاہ کے حکم سے میر نصیر خان اپنے بھائی کی جگہ قلات کے ناظم بنے انکا دور حکومت 1751ء سے 1794ء تک رہا،خوانین قلات افغان حکمرانوں کو سالانہ دو لاکھ روپیہ اور فوجی سپاہی بھی مہیا کرنے کے پابند تھے، نصیر خان کا شمار احمد شاہ کے منظور نظر سپہ سالاروں میں ہونے لگا، اور اسنے بادشاہ کے ساتھ کئ معرکوں میں حصّہ لیا، ان دنوں میر نصیر خان اؤل قندھار میں تھے احمد شاہ نے انھیں قلات کا خان مقرر کیا ، اور مالیہ وصولی وغیرہ کا کام سونپ دیا، جب کشمیر میں بغاوت ہوئی ،

1171ھ کو جب خان قلات میر نصیر خان نے آزادی کا اعلان کیا تو احمد شاہ ابدالی نے فورا" ایک فوجی دستہ روانہ کیا، میر نصیر خان کو جب پتہ چلا تو مقابلے کے لیے نکلےمستونگ کے مقام پر جنگ ہوئی، اس دوران احمد شاہ خود قندھار سے مدد کو پہنچا اور قلات کا محاصرہ کیا، کچھ عرصے بعد دونوں کے مابین مشروط راضی نامہ ہوا جس کی رو سے خان قلات، احمد شاہ کی فوجی معرکوں میں مدد کرینگے اور احمد شاہ نے بھی خان کو کچھ مراعات دیں،اور اس صلح کو مضبوط کرنے کے لیے احمد شاہ نے نصیر خان کی چچازاد بہن سے اپنے بیٹے تیمور شاہ کا نکاح کرد یا۔

1765ء کا زمانہ آیا سکھوں نےپنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا ۔خان آف قلات میر نصیر خان بھیاحمد شاہ ابدالیکے ہمراہ سکھوں کی سرکوبی کے لیے پنجاب کی طرف روانہ ہو گے۔ میر نصیر خان بارہ ہزار کا لشکر لے کر براستہ گندا وہ احمد شاہ کی مدد کو پنجاب روانہ ہوا، ڈیرہ غازی خان سے سردار غازی خان بھی ایک بلوچ لشکر لے کر میر نصیر خان کی فوج میں شامل ہوا، دریا ئے چناب پار کر کے میر نصیر خان کی فوج احمد شاہ کے فوج کے ساتھ شا مل ہوا، اور پھر یہاں سے روانہ ہوکر یہ فوج لاہور میں داخل ہوا، میر نصیر خان نے احمد شاہ کے حکم پر آگے بڑھ کر سکھوں کا مقابلہ کیا، شدید لڑائی شروع ہوئی، میر نصیر خان نے بڑھ بڑھ کر سکھوں پر حملے کیۓ، لڑا ئی میں اس قدر بے خود ہوا کہ سکھوں کے لشکر کے بیچ جا پہنچا سکھوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور قتل کرنا چاہتے تھے اسی دوران ہاتھا پائی میں انکی پگڑی سر سے گر گئی سکھوں نے جب انکے لمبے بلوچی بال دیکھے تو ایک سکھ نے آواز لگائی کہ مت مارنا اپنا ہی بھائی ہے، کیو نکہ دھاڑی اور لمبے بالوں کی وجہ سے بلوچ بھی سکھوں کی طرح لگتے تھے، اس معر کہ سے واپسی پر میر نصیر خان نے یہ کہہ کر اپنے بال منڈوا دیے کہ انکی وجہ سے میں شہادت سے محروم ہوا،

پنجاب کی مہم سے واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان کو ہڑند اور داجل کے علا قے بطور انعام دیے۔ اسی زمانے میں جب احمد شاہ کی مشرقی ایران کی مہم سے واپسی ہوہی تو اس نے میر نصیر خان کی والدہ بی بی مریم کوکوئٹہ کا علا قہ یہ کہتے ہوے دیا کہ یہ آپ کی شال ہے( شال کا مطلب دوپٹہ ہوتا ہے) ۔اسی دن سے کوئٹہ کا نام شال کوٹ پڑ گیا،اور یہ ریاست قلات کا حصہ بن گیا۔

بلوچستان  رقبے کے لحاظ سے پاکستان  کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے  اس کے مغرب میں ایران اور جنوب میں افغانستان ہے  جبکہ شمال میں بحیرہ عرب ہے کوئٹہ اس صوبے کا دارالخلافہ ہے  یہ صوبہ مون سون زون سے باہر ہے  جس کی وجہ  سے زیادہ تر علاقہ صحرا اور پہاڑوں پر مشتمل ہے  شہری علاقوں سے باہر رہنے والے قبائلی لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں  یہاں پر بلوچوں کی آبادی  زیادہ ہے  مگر شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ تر پٹھان یا پشتون  قوم آباد ہے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں کپاس کی کاشت کی جاتی ہے   میدانی علاقوں میں گندم جبکہ بالائی علاقوں میں پھلوں کے باغات ہیں  یہاں کے لوگ جانور بھی پالتے ہیں  جیسے بکرے دمبے وغیرہ  یہاں کی اہم معدنیات میں  کوئلہ جپسم کرومائیٹ چونے کا پتھر سلفر اور فولاد وغیرہ شامل ہیں  قدرتی گیس اور تیل بھی اس علاقے میں دریافت ہوا ہے اور استعمال میں لایا جا رہا ہے اور یہاں کی ساحلی تجا رت مچھلی اور نمک پر مشتمل ہے ، بہت سے حملہ آور بلوچستان کے  راستے برصغیر پہنچے ، سکندر اعظم برصغیر سے  ایران واپسی بھی بلوچستان  کے راستے  اختیار کی، ساتویں صدی سے دسویں صدی تک یہ علاقہ عربوں کے زیر حکومت رہا، سترویں صدی کے  اوائل میں یہاں پر مغل حکومت قائم ہوئی، اسکے بعد بلوچستان قبائلی سرداروں کے زیر حکومت رہا، جن میں خوانین قلات  اہم تھے، افغان جنگ کے دوران یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا،   1876،   1879، اور 1891 کے معاہدوں کے مطابق شمالی علاقہ  جن کو بعد میں برٹش بلوچستان  کہا گیا  کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا، اور کوئٹہ میں ملٹری بیس قائم کردیا گیا، 1947 میں اس علاقہ کو پاکستان میں شامل کردیا گیا، اور اس کو صوبے کا درجہ 1970 میں ملا، 1976 میں حکومت پاکستان  نے سرداری نظام کا خاتمہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ لیا، جس کے باعث حکومت کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا، اس علاقہ مین چند چھو ٹی بڑی قبا ئلی شورشیں  بھی ہوئیں جبکہ مقا می قبا ئل کے آپس میں زاتی جھگڑے اور  مسئلے بھی ہیں 

کوئٹہ کا علاقہ 1876 میں برطانوی کٹر ول میں تھا܂ سر رابرٹ سنڈیمن نے یہاں پر رزیڈنسی قائم کی ܂ شہر یہاں کے مضبوط ملٹری گیریزن کے ارد گرد قائم ہوا اور اسے 1897 میں میونسپلٹی  میں شامل کیا گیا܂ یہاں آرمی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج 1907 میں کھلا.܂ مئ 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے کوئٹہ  شہر کو تہس نہس کر دیا اور تقریباً 20،000 جانوں کا زیاں ہوا܂ اب یہ علاقہ مغربی افغانستان ، مشرقی ایران  اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں کے لیے تجارتی مرکز ہے܂ یہاں کے انڈسٹریز میں کاٹن مل سلفر ریفائنری، تھرمل پاور اسٹیشن پھلوں کے باغات شامل ہیں.

Sunday 8 November 2015

Zehal-e-misken makun taghaaaful- by Hazrat Ameer Khusro

Zehal-e-misken makun taghaaaful,
Duraye naina banaye batiyan.
زحال مسکین مکن تغافل
درائے نینہ بنائے بتیاں
Do not overlook my misery,
by blandishing your eyes and weaving tales,

Ke tab-e-hijran nadaram ay jaan,
Na leho kahe lagaye chatiyan.
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں
نہ لو کہے لگائے چٹھیاں
My patience has over-brimmed, O sweetheart!
why do you not take me to your bosom.

Shaban-e-hijran daraz chun zulf,
Wa roz-e-waslat cho umer kotah.
شبان ہجراں دراز چن زلف
وہ روز وصلت چو عمر کوتاح
Long like curls in the night of separation
short like life on the day of our union.

Sakhi piya ko jo main na dekhun,
To kaise kaTun andheri ratiyan.
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں
تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
My dear, how will I pass the dark dungeon night
without your face before.

Yakayak az dil do chashm-e-jadu,
Basad farebam baburd taskin.
یکایک از دل دو چشم جادو
بصد فریبام بابرد تسکین
Suddenly, using a thousand tricks
the enchanting eyes robbed me of my tranquil mind.

Kisay pari hai jo ja sunave,
Piyare pi ko hamari batiyan,
کسے پڑی ہے جو جا سناوے
پیارے پی کو ھماری بتیاں
Who would care to go and report
this matter to my darling.

Cho shama sozan cho zaraa hairan,
Hamesha giryan be ishq an meh.
چو شمع سوزاں چو زارا حیراں
ہمیشہ گریاں بے عشقان مہ
Tossed and bewildered, like a flickering candle,
I roam about in the fire of love.

Na nind naina na ang chaina,
Na aap aaven na bhejen patiyan,
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں
نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
Sleepless eyes, restless body,
neither comes she, nor any message.

Bahaq-e-roz-e-visaal-e-dilbar,
Ke daad mara gharib Khusro.
بحق روز وصال دلبر
کہ داد مارا غریب خسرو
In honour of the day I meet my beloved
who has lured me so long, O Khusro!

Sapet man ke varaye rakhun,
Jo jaye pauN piya ke khatiyan.
سپیت من کے ورائے رکھوں
جو جائے پاؤں پیا کی کھٹیاں
I shall keep my heart suppressed
if ever I get a chance to get to her trick.
حضرت امیر خسرو Hazat Amir Khusro

Tuesday 3 November 2015

Jhal Magsi District of Balochistan province of Pakistan.

The district is named after Jhal Magsi, which is consist of Two local words " Jal/Jhal means Water and Magsi is the name of a Baloch tribe" who ruled here so the Word "Jhal Magsi means " The Water of Magsi's". Jhal Magsi is the name of the headquarters of the Magsi tribe's empire, the major tribe within the district. The Magsi historically are branched off the Lashari tribe. The present Nawab of Magsi tribe is Zulfqar Ali Khan Magsi, ex-chief minister and Governer of Balochistan.
The district is divided into two sub-divisions: Gandawah and Jhal Magsi. Both sub-divisions have a separate and different administrative history.
Gandawah is a historical and ancient town in Balochistan. Its oldest name was Kandabil, which was renamed Gangaaba during Arab rule During the colonial period this name was changed to Gandawah. Dr. Akhtar Hameed Khan writes in his book titled "Ancient and famous cities of the Pakistan" that Gandawah was one of the provincial headquarters of the "Bhil dynasty" of India. Similarly, the encyclopaedia of Islam under alphabet "K", named Kandabil, has put light on this city. The writing is of Nabi Bux Khan Baloch. The script is supported and cited by many ancient historical sources. During the Arab rule, Gandawah was a very important town again. It was the winter headquarters of Khans during Kalat Khant-e-rule. Gandawah stayed the headquarters of Kachhi province and was part of Nayabati Balochistan. During colonial period it became the tehsil headquarters (Niabat). After independence and declaration of the “one unit”, Gandawah was one of the tehsil headquarters of Kalat district and Kalat division. In 1965, when Kachhi was notified as a separate district, Gandawah became part of the new district. Its position was raised to sub-division in 1971. Gandawah became the district headquarters of Jhal Magsi district, when it was notified on February 16, 1992.
Jhal Magsi, the other important town of the district, is also the headquarters of the Magsi tribe. It is purely a Baloch area and was part of the Kalat native states during the colonial period. The Magsi tribe enjoyed an important position during the role of the Khanate of Kalat. It remained one of the native states with sufficient tribe autonomy during the colonial period. Since the Marshal law of 1958 it was declared one sub tehsil of Gandawah. Jhal Magsi was raised to the position of subdivision in 1989.
The district is rich in archaeological sites and historical monuments. It has archaeological sites near Khanpur Bahltoor and Kotra (called Pingar Mari) named after Dalorai Dumb, a former Hindu king. Also important Dumbs are Dumb Hazoor Bux, Tomb of Moti Ghoram, which is near old Khanpur, Tomb of Altaz Khan near Panj Monah, Tomb of Mian Sahib and Tomb of Bhootani.
Many important saints (Pirs) are buried in the district. Among them some famous Pirs are Muhammad Ayub Shah Bukhari (Gandawah), Sain Rakhil Shah and Sain Chizal Shah (Fatahpur) and Pir Chattal Shah near (Kotra). Their followers visit these places frequently. Pir Lakha is a famous place near Jhal Magsi, where bathing cures many skin diseases. Therefore, visitors are visiting Pir Lakha from far flung areas.

Wednesday 21 October 2015

Hazrat Sufi syed Rakhial Shah and Hazrat Sufi syed Cheezal Shah, Sufi saints of Balochistan.

Dargah fatehpur shareef men Bolan aur Mehran k Sufi poets aur waliullah ke mazar hen. Dargah k pehle Sufi Buzrig Hazrat Sufi Rakhial Shah Alhussaini sufi- alqadri aur unke farzand-e-arjumand Hazrat Sufi Cheezal Shah Alhussaini sufi- alqadri k mazar hen wo Hazrat Sufi Shah Inayat of Jhok meeranpur sindh k mureedain men se taluq rakhte hen. In sufi buzrigan-e-Din ne apni talimat se hazaron logon ko musharaf ba Islam kia aur apni shaairi k zrye Tauheed aur Risalat ki Taleem di. Dargah k moujooda sajada nasheen Sufi Syed Sarfarz Ali Shah Alhussaini sufi- alqadri hen. Baluchistan aur Sindh k elawa na sirf Pakistan balke Bairoone mulk b kafi inke kafi mureedain hen Jo hr sal 11 March to 14 March ko salana Urs Mubarak manane pahunchte hen.