Tuesday 17 November 2015

State of Qalat- A brief History

بلوچستان، قیام پاکستان کے وقت مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخواہ  کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ سن سینتالیس تک بلوچستان قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پربرطانویایجنٹ نگران تھاان میں سب سے بڑی ریاست خانیت قلات ریاست قلات کے حکمران خان آف قلات میر احمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور پاکستان کیساتھ خصوصی اختیارات پر مزاکرات کی پیشکش کی تھی خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاکستانی افواج نےخان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انہیں افغانستان فرار ہونا پڑا- یہ پاکستان میں بلوچوں کے خلاف پہلی فوجی کاروائی تھی اور یوں بلوچوں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ثابت ہوئی

میر نصیر خان کا شمار قلات بلوچستان کے ممتاز ہردلعزیز ترین برو ہی سرداروں میں ہوتا تھا، وہ میر عبداللہ خان برو ہی کا تیسرا چھوٹا بیٹا تھا، اسکی ماں بی بی مریم التازئی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، نادر شاہ کے وفات کے بعد میر نصیر خان، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ قندھار چلا آيا، جب افغانستانکے بادشاہ کے لیے احمد شاہ کا انتخاب ہوا تو میر نصیر خان نے برو ہی سرداروں کی نما ہند گی کی، اسنے احمد شاہ کے حق میں رائے دیکر بالادستی قبول کرلی، کچھ دن بعد نصیر خان کے بھائی محبت خان نے لقمان خان کی بغاوت میں حصہ لے کر احمد شاہ کا اعتماد کھو دیا ،1749ء میں احمد شاہ کے حکم سے میر نصیر خان اپنے بھائی کی جگہ قلات کے ناظم بنے انکا دور حکومت 1751ء سے 1794ء تک رہا،خوانین قلات افغان حکمرانوں کو سالانہ دو لاکھ روپیہ اور فوجی سپاہی بھی مہیا کرنے کے پابند تھے، نصیر خان کا شمار احمد شاہ کے منظور نظر سپہ سالاروں میں ہونے لگا، اور اسنے بادشاہ کے ساتھ کئ معرکوں میں حصّہ لیا، ان دنوں میر نصیر خان اؤل قندھار میں تھے احمد شاہ نے انھیں قلات کا خان مقرر کیا ، اور مالیہ وصولی وغیرہ کا کام سونپ دیا، جب کشمیر میں بغاوت ہوئی ،

1171ھ کو جب خان قلات میر نصیر خان نے آزادی کا اعلان کیا تو احمد شاہ ابدالی نے فورا" ایک فوجی دستہ روانہ کیا، میر نصیر خان کو جب پتہ چلا تو مقابلے کے لیے نکلےمستونگ کے مقام پر جنگ ہوئی، اس دوران احمد شاہ خود قندھار سے مدد کو پہنچا اور قلات کا محاصرہ کیا، کچھ عرصے بعد دونوں کے مابین مشروط راضی نامہ ہوا جس کی رو سے خان قلات، احمد شاہ کی فوجی معرکوں میں مدد کرینگے اور احمد شاہ نے بھی خان کو کچھ مراعات دیں،اور اس صلح کو مضبوط کرنے کے لیے احمد شاہ نے نصیر خان کی چچازاد بہن سے اپنے بیٹے تیمور شاہ کا نکاح کرد یا۔

1765ء کا زمانہ آیا سکھوں نےپنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا ۔خان آف قلات میر نصیر خان بھیاحمد شاہ ابدالیکے ہمراہ سکھوں کی سرکوبی کے لیے پنجاب کی طرف روانہ ہو گے۔ میر نصیر خان بارہ ہزار کا لشکر لے کر براستہ گندا وہ احمد شاہ کی مدد کو پنجاب روانہ ہوا، ڈیرہ غازی خان سے سردار غازی خان بھی ایک بلوچ لشکر لے کر میر نصیر خان کی فوج میں شامل ہوا، دریا ئے چناب پار کر کے میر نصیر خان کی فوج احمد شاہ کے فوج کے ساتھ شا مل ہوا، اور پھر یہاں سے روانہ ہوکر یہ فوج لاہور میں داخل ہوا، میر نصیر خان نے احمد شاہ کے حکم پر آگے بڑھ کر سکھوں کا مقابلہ کیا، شدید لڑائی شروع ہوئی، میر نصیر خان نے بڑھ بڑھ کر سکھوں پر حملے کیۓ، لڑا ئی میں اس قدر بے خود ہوا کہ سکھوں کے لشکر کے بیچ جا پہنچا سکھوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور قتل کرنا چاہتے تھے اسی دوران ہاتھا پائی میں انکی پگڑی سر سے گر گئی سکھوں نے جب انکے لمبے بلوچی بال دیکھے تو ایک سکھ نے آواز لگائی کہ مت مارنا اپنا ہی بھائی ہے، کیو نکہ دھاڑی اور لمبے بالوں کی وجہ سے بلوچ بھی سکھوں کی طرح لگتے تھے، اس معر کہ سے واپسی پر میر نصیر خان نے یہ کہہ کر اپنے بال منڈوا دیے کہ انکی وجہ سے میں شہادت سے محروم ہوا،

پنجاب کی مہم سے واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان کو ہڑند اور داجل کے علا قے بطور انعام دیے۔ اسی زمانے میں جب احمد شاہ کی مشرقی ایران کی مہم سے واپسی ہوہی تو اس نے میر نصیر خان کی والدہ بی بی مریم کوکوئٹہ کا علا قہ یہ کہتے ہوے دیا کہ یہ آپ کی شال ہے( شال کا مطلب دوپٹہ ہوتا ہے) ۔اسی دن سے کوئٹہ کا نام شال کوٹ پڑ گیا،اور یہ ریاست قلات کا حصہ بن گیا۔

بلوچستان  رقبے کے لحاظ سے پاکستان  کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے  اس کے مغرب میں ایران اور جنوب میں افغانستان ہے  جبکہ شمال میں بحیرہ عرب ہے کوئٹہ اس صوبے کا دارالخلافہ ہے  یہ صوبہ مون سون زون سے باہر ہے  جس کی وجہ  سے زیادہ تر علاقہ صحرا اور پہاڑوں پر مشتمل ہے  شہری علاقوں سے باہر رہنے والے قبائلی لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں  یہاں پر بلوچوں کی آبادی  زیادہ ہے  مگر شمال مشرقی علاقوں میں زیادہ تر پٹھان یا پشتون  قوم آباد ہے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں کپاس کی کاشت کی جاتی ہے   میدانی علاقوں میں گندم جبکہ بالائی علاقوں میں پھلوں کے باغات ہیں  یہاں کے لوگ جانور بھی پالتے ہیں  جیسے بکرے دمبے وغیرہ  یہاں کی اہم معدنیات میں  کوئلہ جپسم کرومائیٹ چونے کا پتھر سلفر اور فولاد وغیرہ شامل ہیں  قدرتی گیس اور تیل بھی اس علاقے میں دریافت ہوا ہے اور استعمال میں لایا جا رہا ہے اور یہاں کی ساحلی تجا رت مچھلی اور نمک پر مشتمل ہے ، بہت سے حملہ آور بلوچستان کے  راستے برصغیر پہنچے ، سکندر اعظم برصغیر سے  ایران واپسی بھی بلوچستان  کے راستے  اختیار کی، ساتویں صدی سے دسویں صدی تک یہ علاقہ عربوں کے زیر حکومت رہا، سترویں صدی کے  اوائل میں یہاں پر مغل حکومت قائم ہوئی، اسکے بعد بلوچستان قبائلی سرداروں کے زیر حکومت رہا، جن میں خوانین قلات  اہم تھے، افغان جنگ کے دوران یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا،   1876،   1879، اور 1891 کے معاہدوں کے مطابق شمالی علاقہ  جن کو بعد میں برٹش بلوچستان  کہا گیا  کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا، اور کوئٹہ میں ملٹری بیس قائم کردیا گیا، 1947 میں اس علاقہ کو پاکستان میں شامل کردیا گیا، اور اس کو صوبے کا درجہ 1970 میں ملا، 1976 میں حکومت پاکستان  نے سرداری نظام کا خاتمہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ لیا، جس کے باعث حکومت کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا، اس علاقہ مین چند چھو ٹی بڑی قبا ئلی شورشیں  بھی ہوئیں جبکہ مقا می قبا ئل کے آپس میں زاتی جھگڑے اور  مسئلے بھی ہیں 

کوئٹہ کا علاقہ 1876 میں برطانوی کٹر ول میں تھا܂ سر رابرٹ سنڈیمن نے یہاں پر رزیڈنسی قائم کی ܂ شہر یہاں کے مضبوط ملٹری گیریزن کے ارد گرد قائم ہوا اور اسے 1897 میں میونسپلٹی  میں شامل کیا گیا܂ یہاں آرمی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج 1907 میں کھلا.܂ مئ 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے کوئٹہ  شہر کو تہس نہس کر دیا اور تقریباً 20،000 جانوں کا زیاں ہوا܂ اب یہ علاقہ مغربی افغانستان ، مشرقی ایران  اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں کے لیے تجارتی مرکز ہے܂ یہاں کے انڈسٹریز میں کاٹن مل سلفر ریفائنری، تھرمل پاور اسٹیشن پھلوں کے باغات شامل ہیں.

Sunday 8 November 2015

Zehal-e-misken makun taghaaaful- by Hazrat Ameer Khusro

Zehal-e-misken makun taghaaaful,
Duraye naina banaye batiyan.
زحال مسکین مکن تغافل
درائے نینہ بنائے بتیاں
Do not overlook my misery,
by blandishing your eyes and weaving tales,

Ke tab-e-hijran nadaram ay jaan,
Na leho kahe lagaye chatiyan.
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں
نہ لو کہے لگائے چٹھیاں
My patience has over-brimmed, O sweetheart!
why do you not take me to your bosom.

Shaban-e-hijran daraz chun zulf,
Wa roz-e-waslat cho umer kotah.
شبان ہجراں دراز چن زلف
وہ روز وصلت چو عمر کوتاح
Long like curls in the night of separation
short like life on the day of our union.

Sakhi piya ko jo main na dekhun,
To kaise kaTun andheri ratiyan.
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں
تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
My dear, how will I pass the dark dungeon night
without your face before.

Yakayak az dil do chashm-e-jadu,
Basad farebam baburd taskin.
یکایک از دل دو چشم جادو
بصد فریبام بابرد تسکین
Suddenly, using a thousand tricks
the enchanting eyes robbed me of my tranquil mind.

Kisay pari hai jo ja sunave,
Piyare pi ko hamari batiyan,
کسے پڑی ہے جو جا سناوے
پیارے پی کو ھماری بتیاں
Who would care to go and report
this matter to my darling.

Cho shama sozan cho zaraa hairan,
Hamesha giryan be ishq an meh.
چو شمع سوزاں چو زارا حیراں
ہمیشہ گریاں بے عشقان مہ
Tossed and bewildered, like a flickering candle,
I roam about in the fire of love.

Na nind naina na ang chaina,
Na aap aaven na bhejen patiyan,
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں
نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
Sleepless eyes, restless body,
neither comes she, nor any message.

Bahaq-e-roz-e-visaal-e-dilbar,
Ke daad mara gharib Khusro.
بحق روز وصال دلبر
کہ داد مارا غریب خسرو
In honour of the day I meet my beloved
who has lured me so long, O Khusro!

Sapet man ke varaye rakhun,
Jo jaye pauN piya ke khatiyan.
سپیت من کے ورائے رکھوں
جو جائے پاؤں پیا کی کھٹیاں
I shall keep my heart suppressed
if ever I get a chance to get to her trick.
حضرت امیر خسرو Hazat Amir Khusro

Tuesday 3 November 2015

Jhal Magsi District of Balochistan province of Pakistan.

The district is named after Jhal Magsi, which is consist of Two local words " Jal/Jhal means Water and Magsi is the name of a Baloch tribe" who ruled here so the Word "Jhal Magsi means " The Water of Magsi's". Jhal Magsi is the name of the headquarters of the Magsi tribe's empire, the major tribe within the district. The Magsi historically are branched off the Lashari tribe. The present Nawab of Magsi tribe is Zulfqar Ali Khan Magsi, ex-chief minister and Governer of Balochistan.
The district is divided into two sub-divisions: Gandawah and Jhal Magsi. Both sub-divisions have a separate and different administrative history.
Gandawah is a historical and ancient town in Balochistan. Its oldest name was Kandabil, which was renamed Gangaaba during Arab rule During the colonial period this name was changed to Gandawah. Dr. Akhtar Hameed Khan writes in his book titled "Ancient and famous cities of the Pakistan" that Gandawah was one of the provincial headquarters of the "Bhil dynasty" of India. Similarly, the encyclopaedia of Islam under alphabet "K", named Kandabil, has put light on this city. The writing is of Nabi Bux Khan Baloch. The script is supported and cited by many ancient historical sources. During the Arab rule, Gandawah was a very important town again. It was the winter headquarters of Khans during Kalat Khant-e-rule. Gandawah stayed the headquarters of Kachhi province and was part of Nayabati Balochistan. During colonial period it became the tehsil headquarters (Niabat). After independence and declaration of the “one unit”, Gandawah was one of the tehsil headquarters of Kalat district and Kalat division. In 1965, when Kachhi was notified as a separate district, Gandawah became part of the new district. Its position was raised to sub-division in 1971. Gandawah became the district headquarters of Jhal Magsi district, when it was notified on February 16, 1992.
Jhal Magsi, the other important town of the district, is also the headquarters of the Magsi tribe. It is purely a Baloch area and was part of the Kalat native states during the colonial period. The Magsi tribe enjoyed an important position during the role of the Khanate of Kalat. It remained one of the native states with sufficient tribe autonomy during the colonial period. Since the Marshal law of 1958 it was declared one sub tehsil of Gandawah. Jhal Magsi was raised to the position of subdivision in 1989.
The district is rich in archaeological sites and historical monuments. It has archaeological sites near Khanpur Bahltoor and Kotra (called Pingar Mari) named after Dalorai Dumb, a former Hindu king. Also important Dumbs are Dumb Hazoor Bux, Tomb of Moti Ghoram, which is near old Khanpur, Tomb of Altaz Khan near Panj Monah, Tomb of Mian Sahib and Tomb of Bhootani.
Many important saints (Pirs) are buried in the district. Among them some famous Pirs are Muhammad Ayub Shah Bukhari (Gandawah), Sain Rakhil Shah and Sain Chizal Shah (Fatahpur) and Pir Chattal Shah near (Kotra). Their followers visit these places frequently. Pir Lakha is a famous place near Jhal Magsi, where bathing cures many skin diseases. Therefore, visitors are visiting Pir Lakha from far flung areas.