Tuesday 23 June 2020

Sufi Saint Hazrat Faizal Faqeer of Jhal Magsi District. A spritual Nobel religious Personality.

حضرت صوفی فیض محمد المعروف حضرت فیضل فقیر نصیرآباد ڈویژن کے صوفیاء کرام میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں جنہوں نے حضرت صوفی سید رکھیل شاہ اور حضرت صوفی سید چیزل شاہ کے زیرسایہ وجدان و کشف حاصل کیا۔ حضرت فیضل فقیر گاجان شہر کے قبیلہ لاشار  میں 3 ربیع ثانی 1301 ھ/1883 ع میں جمعرات کے دن پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام خان محمد تھا۔ سات آٹھ برس کی عمر  کو پہنچے تو عام دستور کے مطابق اپنے بیلوں کو چرانے کے لیے لے جانے لگے۔ دس برس کی عمر تک کھیل کود ہی میں مصروف رہے۔
 پھر آپ کی زندگی میں ایک موڑ آیا اور آپ دل لگا کر تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ چناچہ والدین کو بتائے بغیر آپ ایک مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ "میں بھی علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔" مولوی صاحب نے آپ کا شوق اور رجھان دیکھ کر پڑھانا شروع کیا۔ جب آپ نے قرآن شریف ختم کرلیا تو دستور کے مطابق مولوی صاحب نے ان کے ہاتھ تسبیح سے باندھے اور چند طالب علموں کے ہمراہ انہیں ان کے گھر بھیج دیا۔ والدین نے حقیقت دریافت کی تو طالب علموں نے بتایا کہ انہوں نے قرآن مجید ختم کر لیا ہے اس لیے استاد نے ان کے ہاتھ تسبیح سے باندھ دیے ہیں اور آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ ختم قرآن کی مٹھائی دیں۔ اس پر فیضل کے والدین بے حد خوش ہوئے اور فی الفور مولوی صاحب کی خدمت میں بچھڑا بھجوا دیا۔
اب آپ فارسی و عربی کتب پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ پہلے تو تعلیم کی رفتار سست ہی رہی کیونکہ اکیس سال کی عمر میں 'سکندر نامہ' سے فارغ ہوئے۔
بہر حال ظاہری تعلیم سے فراغت پاکر آپ تعلیم باطنی کی جانب متوجہ ہوئے اور مرشد کامل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ فتح پور ( علاقہ گنداوا، ضلع کچھی)  پہنچ کر حضرت سید رکھیل شاہ  صوفی القادری کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ وہاں پہلے طلبہ کو درس دینے میں مصروف رہے پھر پیر مغاں کے ارشاد کے مطابق پرانی مسجد میں بیٹھ گئے اور چلہ کشی شروع کی۔
 چلہ کھینچنے کا طریقہ یہ ہے کہ چلہ کھینچنے والا ایک کوزہ پانی کا اور چند کھجوریں اپنے پاس رکھتا ہے اور ان میں سے چند دانے کھاتا رہتا ہے اور چالیس روز تک ذکر الہیٰ میں مشغول رہ کر ایک چلہ پورا کرتا ہے۔
 فیضل فقیر نے بھی اسی دستور پر عمل کیا مگر آپ یاد الہیٰ میں اتنے منہمک ہوگئے کہ کھانے پینے کا خیال تک نہ رہا۔ چالیس دن گذرنے کے بعد  دوسرے لوگ  وہاں پہنچے تو  انہوں نے دیکھا کہ آپ نڈھال پڑے ہوئے ہیں۔ سانس بھی مشکل سے آرہی ہے۔ انہوں نے منہ میں شربت ٹپاکیا تو سانس آئی۔ اور یوں آپ اس اولین منزل کو بخیر و خوبی طے کرکے آگے بڑھے۔
 آپ کئی سال تک فتح پور میں مرشد کی خدمت میں رہے اور پیر کامل کی رہنمائی میں طریقت کی منازل طے کیں۔ 
بلوچی شعر کا ترجمہ ترجمہ: فتح پور میں وہ خود ہی ہادی تھا اور خود ہیں پیر مغاں تھا۔
بعد ازاں مرشد سے اجازت لے کر نواب شاہ کی جانب روانہ ہونے لگے لیکن آپ کے قبیلے کے لاشاریوں نے انہیں وہاں جانے سے روکا اور عرض کی کہ نصیر آباد  (بلوچستان) میں ان کی ایک بستی ہے جو جن اور دیووں کی وجہ سے ویران ہوچکی ہے۔ آپ وہاں چلیں اور اسے آباد کریں۔  صوفی فیضل فقیر  راضی ہوگئے اور نواب شاہ جانے کا ارادہ ترک کردیا اور ان لوگوں کے ہمراہ اس ویران بستی میں پہنچے اور اس کا نام فیض پور رکھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے گرد و پیش کے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر فیض ہونے لگے۔ کہتے ہیں کہ اس بستی میں ایک مجذوب عورت تھی جس نے لوگوں کو جنوں کے خوف سے بستی کو چھوڑتے دیکھا تھا۔ وہ کبھی کبھی کہا کرتی کہ "ایک نہ ایک دن یہاں ایک مرد خدا آئے گا اسے (جن کو) اس بستی سے نکالے گا" آخر اُس مجذوبہ کی بات درست نکلی اور صوفی فیضل کی وجہ سے وہ ویران بستی آباد ہوگئی۔ کسی نے صحیح کہا ہے:

 بہر جا چوں رود نیکو سرشتے،
اگر دوزخ بود گردد بہشتے۔
 
آپ سے کئی کرامات منسوب ہیں جیسے:
ایک دن گنداوہ کے قریب صدیق کی ویران مسجد میں آپ خدا کی یاد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص حیران و سرگردان ہانپتا  کانپتا  وارد ہوا اور کہنے لگا کے خدا کے واسطے مجھے کہیں پناہ  دیں کہ دشمن مجھے قتل کرنے کے لیے آرہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں تمہیں چھپاؤں ، یہ صرف ایک ویران مسجد ہے۔ اس نے کہا جس طرح ہو مجھے دشمنوں سے بچائیے۔ آپ نے فرمایا کہ کھڑے نہ رہو مسجد کے کسی کونے میں بیٹھ جاؤ۔ خدا تم کو امان دے گا۔ وہ شخص مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اتنے میں پانچ سات آدمی جو لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے لیس تھے، وہاں آ پہنچے اور کہا یہاں ہمارا مفرور آیا ہے، یہ اس کے قدموں کے نشانات ہیں۔ صوفی فیضل کہنے لگے میں ایک فقیر ہوں۔ تمہارا مفرور میرے پاس کہاں ہے اور میں نے کہاں چھپایا ہے؟ انہوں نے مسجد کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن اُس کا نام و نشان نہ ملا۔ وہ مایوس ہوکر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد وہ مفرور بھی سلامتی کے ساتھ نکل گیا۔
صوفی صاحب  نے ایک درخت کا پودا لگایا۔ چند دنوں کے بعد وہ خشک ہوگیا۔ ایک روز آپ نے اسے دیکھ کر لوگوں سے فرمایا کہ  اسے پانی کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے عرض کی حضور ہم تو پانی دیتے ہیں لیکن یہ سوکھ گیا ہے۔ آپ آئے اور درخت کے کناروں کو آہستہ آہستہ عصا سے مارتے رہے۔ اور فرمایا اسے پانی دو، خدا نے چاہا تو یہ ہرا بھرا ہوجائے گا۔ خدمتگاروں نے آپ کے فرمان پر عمل کیا۔ وہ پودا سرسبز ہوکر ایک بڑا درخت بن گیا۔
 آپ کی بستی کو جانے والی راہ پر ایک آدمی نے قبضہ کر لیا کیونکہ وہ زمین بھی آپ نے بخش دی تھی۔ لوگوں کی آمد و رفت بند ہوئی۔ سب مجبور ہوکر آپ کے پاس آئے اور حقیقت حال بیان کی اور کہا آپ ہمیں حکم دیں ہم لڑ جھگڑ کر اس سے راستہ واپس لے لیتے ہیں۔ صوفی فیضل نے فرمایا کہ ہم فقیروں کا کام لڑنا جھگڑنا نہیں بلکہ مخلوق کے لیے نیک دعا کرنا ہے۔ سب لوگ لاچار ہوکر خاموش ہوگئے۔
خدا کی قدرت ایک روز وہی راستہ بند کرنے والا شخص ہیضہ میں مبتلا ہوگیا۔ آپ کو پتہ چلا تو آپ نے ایک تعویذ لکھ کر کسی کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ اس کو پانی میں گھول کر پی لو خدا نے چاہا تو تندرست ہوجاؤ گے۔ ڈرنا نہیں اور یہ خیال نہ کرنا کہ فقیر نے مجھے بدعا دی ہے۔ اس تعویذ کے استعمال کے بعد وہ شخص تندرست ہوگیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت چاہی۔
آپ کے چند مرید ایک بنیے کے مقروض تھے۔ قرضے کے بدلے اس ساہوکار نے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے بے حد منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا۔ وہ لوگ مجبوراََ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےا ور کہا آپ بیچ بچاؤ کرا دیجیے۔ وہ ہماری زمینوں پر قبضہ نہ کرے، ہم عہد کرتے ہیں اس کا قرض آہستہ آہستہ ادا  کر دیں گے۔ آپ نے ساہوکار سے کیا لیکن وہ نہ مانا اور تحصیل میں جا کر رپورٹ درج کرا دی۔ آپ نے مریدوں سے کہا تم لوگ جاؤ اور خدا  پر بھروسہ رکھو ۔ انشااللہ اسے کامیابی نہیں ہوگی۔
ساہوکار کی رپورٹ پر تحصیل دار نے قرض داروں کو طلب کیا۔ اور ہندو کو حکم دیا کہ جا کر اپنا بہی کھاتہ لاؤ۔ ہندو بے بہی کھاتہ سامنے رکھا۔ شروع سے آخر تک دیکھا ایک پیسہ بھی بقایا نہ نکلا۔ دیکھا کہ سب رقم وصول ہوچکی ہے۔ ششدر رہ گیا۔ آخر بہی کھاتے کو بغل میں دبا کر چلتا بنا اور قرض داروں کی جان میں جان آئی۔ اس روز کے بعد ہندو غریب ہونا شروع ہوا حتیٰ کہ بالکل قلاش ہوگیا اور اس کا دو منزلہ مکان بھی گر پڑا۔
آپ کو سماع سے دلچسپی تھی۔ ایک روز مریدوں نے کہا کہ ریڈیو سے اچھے اچھے نغمے نشر ہوتے ہیں۔ آج آپ ان سے لطف اندوز ہوں۔ آپ نے کہ نہیں رہنے دو۔ مریدوں نے ضد کی اور ریڈیو لاکر سامنے رکھ دیا۔ لیکن ریڈیو بالکل خاموش ہوگیا۔ اسے آپ سے دور لے گئے تو پھر وہ چلنے شروع ہوگیا۔
صوفی فیضل فقیر کی تصویر کیمرے سے نہیں اترتی تھی۔ کئی بار کوشش کے باوجود کامیابی نہیں ہوسکی۔ آخر جب حج کی تیاری کرنے لگے تو آپ سے کہا گیا کہ تصویر کے بغیر حج لے لیے نہیں جانے دیتے۔ اس لیے مہربانی کرکے تصویر کھنچوانے کی اجازت دے دیجیے ۔ صرف اس وقت آپ کی تصویر اتر سکی۔
آپ بیمار ہوئے تو علاج کے لیے ایک ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ نبض دیکھ کر ڈاکٹر نے فقیر صاحب سے پوچھا کہ جناب طبیعت کیسی ہے۔ آپ نے گرج کر کہا کہ خدا کا شکر ہے میں تندرست ہوں۔
ڈاکٹر یہ کیفیت ملاحظہ کرنے کے بعد باہر جاکر رونے لگا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا میں حیران ہوں کہ نبض بالکل بند ہے مگر معلوم نہیں کہ شیر کی طرح گرج کر بات کرنے والا کون ہے۔ تھرمامیٹر سے دیکھا تو جسم کا درجہ حرارت 103 ڈگری تھا۔
آخری وقت بھی میں بھی فقیر صاحب سے نماز قضا نہیں ہوئی۔ صبح کی نماز کے وقت اپنے فرزند سے کہا تیمم کے لیے اینٹ لاؤ۔ وہ اینٹ لے آیا۔ آپ نے تیمم کیا اور لیٹے لیٹے نماز پڑھنی شروع کی اور اسی حالت میں آپ کا وصال ہوا۔

آپ کی تاریخ وفات 14 ربیع الثانی 1377 ھ (بمطابق 8 نومبر 1957 ع ) ہے۔ آپ فارسی، اردو ، بلوچی، سندھی، سرائیکی اور براہوی زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ اسی کے ذریعے علم دین کی خدمت کی۔ آپ کی شاعری تصوف میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آپ کے دیوان آپ کے جانشین حاجی محرم فقیر کے پاس محفوظ ہیں۔

 مددی کتب و حوالاجات:
قدیم براہوی شعرا، حصہ اول، عبدالرحمن براہوی، کوئٹہ 1968ع ص 97-98
چھ زبانوں کا صوفی شاعر فیضل، پیر محمد زبیرانی (بزبان بلوچی)، بولان نامہ، کوئٹہ 1967ع